جرمن وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ تعلیم اور ثقافتی شعبوں میں کام کرنے والے سینکڑوں جرمنوں کو اگلے ماہ روس سے نکا دیا جائے گا۔
اس نے میڈیا رپورٹس کی تصدیق کی کہ روس نے جون کے آغاز سے جرمن ملازمین کی تعداد کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان میں ماسکو کے جرمن اسکول کے اساتذہ اور گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کلچرل ایسوسی ایشن کا عملہ شامل ہے۔
یہ اقدام سفارت کاروں کی ملک بدری اور روس اور جرمنی کے درمیان بڑھتے ہوئے کشیدہ تعلقات کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ روس اور جرمنی نے اپنے اپنے سفارت خانوں کے 40 ملازمین کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کر دیا تھا۔
جرمن اخبار سڈوئچے زیتونگ نے خبر دی ہے کہ حالیہ اقدام سے سفارت کاروں سمیت ملازمین کی "کم سے درمیانی تین ہندسوں کی تعداد" متاثر ہوگی۔
جرمن اخبار نے جرمن وزارت خارجہ کے حوالے سے کہا ہے کہ 'اس یکطرفہ، غیر منصفانہ اور ناقابل فہم فیصلے کے تناظر میں وفاقی حکومت اب روس میں ثالثوں کی کم از کم موجودگی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ سفارتی موجودگی کو بھی برقرار رکھنے پر فکرمند ہے۔'
جرمنی میں روسیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے وزارت نے کہا کہ اس کا مقصد عملی طور پر حقیقی توازن کو یقینی بنانا ہے۔
یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد سے یورپی یونین کے کئی ممالک روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کر چکے ہیں۔ مارچ 2022 میں جاسوسی کے الزام میں 40 سے زائد سفارتکاروں کو یورپی یونین کے چار ممالک سے ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔
روس اور جرمنی گہرے اقتصادی اور ثقافتی روابط رکھتے تھے ، جو روس کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں تناؤ کا شکار ہیں۔
چند ہی دنوں کے اندر چانسلر اولاف شولز نے فوجی اخراجات میں اضافہ کرکے اور یوکرین کو براہ راست ہتھیار بھیجنے کا وعدہ کرکے جرمنی کی خارجہ پالیسی میں انقلاب برپا کر دیا۔