توشہ خانہ، جس کا مطلب ہے 'گفٹ ڈپازٹری'، ایک ایسی جگہ ہے جہاں سربراہان مملکت سرکاری دوروں کے دوران غیر ملکی شخصیات سے تحائف وصول کرتے ہیں۔ یہ سہولت 1972 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قائم کی گئی تھی۔ سربراہان مملکت کو ملنے والے تحائف ریاستی ملکیت تصور کیے جاتے ہیں اور انہیں توشہ خانہ میں جمع کرانا چاہیے۔
2018 میں وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں حکومت پاکستان نے سرکاری تحائف کے استعمال میں شفافیت لانے کے لئے توشہ خانہ ریکارڈ کو عام کرنے کا فیصلہ کیا۔ منظر عام پر آنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ بہت سے سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور فوجی حکام نے مناسب طریقہ کار پر عمل کیے بغیر توشہ خانہ سے تحفے لیے تھے۔
توشہ خانہ سے تحائف لینے والی اہم ترین شخصیات میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی شامل ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق مریم نواز کو متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے 2013 میں بی ایم ڈبلیو گاڑی ملی تھی لیکن وہ اسے توشہ خانہ میں جمع کرانے میں ناکام رہیں۔ انہیں 2015 میں ایک سعودی شہزادے کی جانب سے ہار اور بالیاں بھی ملی تھیں جو گفٹ ڈپازٹری میں جمع نہیں کرائی گئیں۔
مریم نواز نے ان الزامات کی تردید کی اور دعویٰ کیا کہ یہ تحفے ذاتی تھے اور وزیر اعظم کی بیٹی کی حیثیت سے وصول نہیں کیے گئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے بی ایم ڈبلیو گاڑی کے لئے ادائیگی کی تھی ، اور یہ کوئی تحفہ نہیں تھا۔
توشہ خانہ سے تحائف لینے والے دیگر سیاستدانوں میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ مہنگی گھڑیاں، زیورات اور دیگر لگژری اشیاء لے گئے تھے۔
توشہ خانہ کے ریکارڈ کو منظر عام پر لانے کے بعد حکومت پاکستان نے اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کیا اور سرکاری تحائف کے غلط استعمال کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ توشہ خانہ میں جمع نہ کرائے گئے تحائف واپس کیے جائیں اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے۔