اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اعجاز افضل نے اے آر وائی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 10 کے مواد کا انکشاف کردیا۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کی جلد 10۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس شریف خاندان کے دیگر ممالک کے ساتھ مالی معاملات کے شواہد موجود ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی کی جلد 10 میں ریاست کے خلاف کچھ نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے مشاہدہ بھیجا کہ حکومت کی جانب سے تجویز کردہ جے آئی ٹی کے ارکان ان کے زیر اثر ہیں تو ججز ان پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں، رجسٹرار کو تحریری طور پر جے آئی ٹی کے نام پوچھنے چاہیے تھے لیکن انہوں نے اس کے بجائے واٹس ایپ کے ذریعے بات کی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے قطری خط اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی قومی اسمبلی میں تقریر کو غلط قرار دیا اور پاناما کیس کے پہلے فیصلے میں انہیں ملزم قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ سماعت کے دوران اقامہ اینڈ کمپنی کا معاملہ سامنے آیا اور مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے اسے قبول کرلیا۔ نواز شریف کو ان کے اکاؤنٹ میں تنخواہ مل رہی تھی لیکن انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا کیونکہ قانون کے مطابق امیدوار کو گزشتہ سال جون تک اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانا ہوتی ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے جون 2012 میں تنخواہ لینے کا اعتراف کیا تھا۔ اگر وہ یہ کہتے کہ وہ اثاثوں کی تفصیلات میں اس کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں تو عدالت اس پر غور کر سکتی تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما کیس میں متفقہ فیصلے میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔