امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا ہے کہ امریکا پاکستان میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، انسانی حقوق اور آزادی صحافت کا معاملہ پاکستان کے ساتھ اٹھایا گیا۔
پاکستان میں سیاسی پیش رفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ پاکستان میں جمہوری اصولوں اور قانون کی پاسداری دیکھنا چاہتا ہے۔
ویدانت پٹیل نے مزید کہا کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پریس کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے نامہ نگار نے پاکستان میں انٹرنیٹ سروسز کی بندش پر امریکا کے ردعمل کے حوالے سے سوال اٹھایا۔ ترجمان نے کہا کہ انٹرنیٹ بھی مواصلات کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تین رکنی بینچ نے انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیراعظم کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے عمران خان کی کمرہ عدالت کے اندر سے رینجرز کی جانب سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا۔
اپریل میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے بیان کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ سازش پر ان کا موقف واضح اور مستقل ہے۔
نیڈ پرائس کی جانب سے یہ جواب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں معمول کی بریفنگ کے دوران سامنے آیا جب ایک صحافی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ریمارکس کے بارے میں پوچھا۔
صحافی نے سوال کیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ امریکہ نے عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کی سازش میں ملوث ہونے کی دھمکی دی تھی یا اس میں ملوث تھا۔ اس پر ترجمان نے کہا کہ ہم اس سے اتفاق کریں گے۔