کراچی: وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کی اصل آبادی 6 کروڑ 44 لاکھ ہے جبکہ وفاقی حکومت نے اس کا تخمینہ 5 کروڑ 76 لاکھ لگایا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 68 لاکھ افراد کی گنتی نہیں کی گئی۔
وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی معمولی فرق نہیں ہے اور پانچ سال (2017-2023) کے عرصے میں مردم شماری کرانے کا مقصد درست، فول پروف اور سائنسی گنتی کرنا تھا لیکن یہ بھی ناقص اور ناقابل قبول ثابت ہوا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ گزشتہ رات اسلام آباد میں ایک اجلاس ہوا جس میں انہیں مدعو نہیں کیا گیا تھا لیکن چیف سیکرٹری نے اس میں شرکت کی۔ انہیں اعتماد میں لیے بغیر اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب کے علاوہ 15 مئی سے مردم شماری کا عمل بند کر دیا جائے گا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر مردم شماری شرح نمو کی بنیاد پر کی جانی تھی تو پھر اتنی مہنگی اور ہولناک مشق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت مردم شماری ہر 10 سال بعد ہوتی ہے، آخری مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی لیکن یہ ناقص تھی، اس لیے سی سی آئی میں ان کے شور شرابے پر وفاقی حکومت نے 2023 میں دوبارہ مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اب 2023 کی یہ مردم شماری بھی ناقص اور متنازع ہ ثابت ہو رہی ہے لہٰذا وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے اطمینان کی حد تک اپنی خامیوں کو دور کرے ورنہ ان کی حکومت کے پاس اسے مسترد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلاکس کے اعداد و شمار داخل کرنے والے شمار کنندگان کو مرکزی ڈیٹا سینٹرز قبول نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری میں کراچی کے تمام بلاکس کا احاطہ نہیں کیا گیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی شہر میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری ہے لہذا وہ اپنا میئر منتخب کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں ہمارا (پی پی پی) میئر ہوگا اور لوگ جانتے ہیں کہ ہم نے ان کی خدمت کی ہے اور انہوں نے بیلٹ کے ذریعے اس کا اعتراف کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے 1970 کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے اور اس کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی خدمت پر یقین رکھنے والے اس شہر کے عوام نے اسے بلدیاتی انتخابات میں ووٹ دیا۔