چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ آئین پر سب متفق ہیں لیکن آئین پر عمل درآمد پر ہر کوئی واضح نہیں۔ ایک بات اچھی ہے کہ حکومت اور اداروں نے کہا کہ وہ عدالت میں دلائل دیں گے جو قانونی ہیں ورنہ وہ عدالت کے دروازے کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔
نظرثانی ایکٹ، پنجاب الیکشن سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ کیا 90 دن میں ہونے والے انتخابات آئینی تقدس رکھتے ہیں؟ عدالت کے باہر احتجاج کا مقصد کیا تھا؟ انصاف کی فراہمی خدا کا کام ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنا دیا جائے تو اس کے سامنے نئے نکات بھی اٹھائے جائیں گے، قانون واپس لینا ممکن نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھ چکے ہیں کہ کیا آپ 8 اکتوبر کے الیکشن پر حتمی فیصلہ دے سکتے ہیں؟ ملک میں جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد میں نے یہ سوال اٹھایا ہے، کچھ ممالک میں میں 9 مئی کا ذکر کر رہا ہوں، آئین پر سب متفق ہیں لیکن آئین کے نفاذ پر ہر کوئی واضح نہیں ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 14 مئی کے بعد ملک میں آئین دم توڑ چکا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر پرانے قانون کے تحت سماعت ہونی چاہیے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہاں، آئیے پرانے قانون کے تحت اس درخواست پر سماعت کرتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ نیا کیس نہیں ہے، یہ پہلے کے فیصلے کے خلاف اپیل ہے۔ نیا قانون آئین سے مطابقت نہیں رکھتا اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تسلسل ہے۔